Faraz Faizi

Add To collaction

06-Apr-2022-تحریری مقابلہ۔(جس کی صحبت میں خدا یاد آئے) Opne topic


بس کہ آسان ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گزشتہ قسط میں ایک سوال چھوڑا تھا ہم نے قارین کیلئے! یقیناجس کی وضاحت کے منتظر ہوں گے آپ سب۔تو بتاتا چلوں، مجھ جیسے کم علم کی کیا بساط کہ خامہ فرسائی کروں۔پھر بھی گوشئہ خیال سے کچھ شگوفے آپ کے حوالے کئے دیتے ہیں۔

۞"آدمی"(یعنی حضرت انسان) جو کہ اپنے لفظی سانچے ہی سے اپنی اصل کی جانب اشارہ کرتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، مطلب آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو "آدمی" کہا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں"حضرت انسان"۔یعنی لفظی اعتبار سے دونوں ہی الگ اور تخلیقی عنصر میں یکساں، لیکن اس لفظی گورکھ دھندے سے نکل کر اگر آپ دیکھیں تو یقینا ایک معمہ ہے اور اس کا حل بھی آپ تلاش لیں گے۔

۞صوفیا کرام کہتے ہیں: انسان "اُنس" سے بنا ہے جس کے معنی محبت، پیار، لگاؤ وغیرہ کے ہیں، یہی وجہ ہے ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت نہیں کرسکتا کیوں اس کے خمیر میں "اُنسیت" کا بیج بویا گیا ہے،. جس سے محبت کے کونپل پھوٹتے ہیں، اور بے پناہ لگاؤ کا ثمر پیدا ہوتا ہے۔ آپ کا ہمارا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے، دیکھیں آپ میں سے ہر کسی کے ساتھ ایسا اتفاق ضرور ہوا ہوگا کہ آپ کسی سفر پر ہوں اور دوران سفر کسی سے ایک خاص قسم کا لگاؤ ضرور ہوا ہو، حالانکہ نہ آپ اسے جانتے ہیں اور نہ وہ آپ کو، بلکہ رشتے ناطوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، تو کیا وجہ بنی کہ ایک دوسرے میں لگاؤ پیدا ہوگئی، یہ لگاؤ پھر گفتگو، اور گفتگو سے مضبوط روابط تک جا پہنچی، تو بتادیں کہ یہ وہی "انس" ہے جس نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دیا اور ہم یہ جان سکے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت قطعی نہیں کرسکتا البتہ اس کی عادت و اطوار اور قبیح افعال سے جو ہیجان طبیعتوں میں پیدا ہوتی ہے اسے نفرت مان لیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں ہم بغض، حسد، جلن، کینہ جیسی قلبی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ہماری ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا: 

چلے چراغ سے پہلے چراغ جلتے تھے
اب آدمی سے بھی جلتا ہے آدمی ائے دوست

۞الغرض جب یہ خاکہ صوفیا کی بارگاہ میں زانوے ادب طئے کرتا ہے اور جواب چاہتا ہے تو یوں ارشاد ہوتا ہے کہ "انسان وہ ہے جس کی صحبت میں "انس" یعنی لگاؤ پیدا ہو، جس کے پاس بیٹھو تو اپنا پن محسوس ہو، محبت کے پھوہارے اپنے قریب کرلے، اور "آدمی" وہ ہے جس کی صحبت میں خدا یاد آئے، اس کی ذات میں جلوہ حق نظر آنے لگے، اس کی ذات میں محبوب حقیقی کے رازہائے سربستہ کھلتے ہوں، اس کی زبان راست گوئی کی آئینہ دار ہو، اس کا ہر قدم عشق کی راہ کا مسافر، وہ مخلوق پرور، انسانیت کی روح کو زندگی بخشنے والا، وہ چلے تو محبوب کی ادا، وہ کہے تو فیصلہ، ہر لحظہ حق کا علمدار، پہن کر عشق کی قبا، لگاتا ہو ایک ہی صدا: 

ایسی پوشاک مرے یار نے پہنائی ہے
ذرّے ذرّے میں تری شکل نظر آئی ہے

کیا خوب معمہ ہے یہ "آدمی"۔قارین! اگر آپ چاہیں گے تو مزید معلومات پیش کریں گے، 
اپنی رائے ضور دیں۔۔۔منتظر رہیں گے۔۔

آپ کا اپنا: فرازفیضیؔ
shamsulliqafarazfaizi@gmail.com 

   10
3 Comments

Seyad faizul murad

07-Apr-2022 03:23 PM

Nice

Reply

Simran Bhagat

07-Apr-2022 02:57 PM

Nice

Reply

asma saba khwaj

07-Apr-2022 02:54 PM

بہت خوب محترم

Reply